دو ہزار چھ میں ہم جوائنٹ فیملی سسٹم سے الگ ہووے تو چچی تائی سب ہمارے سخت خلاف ہو گئے ان کو فرنٹ والا پورشن ملا تو ہمیں سزا کے طور پر پیچھے بھیج دیا گیا بجلی کا بل اتا تو چھپا دیا جاتا تین ماہ بعد میٹر کاٹنے والے اتے تو پتا چلتا کہ اتنا بل بنا ہوا تھا ترلہ منت کر کے ان سے جان چھڑاتے کوئئ شادی کا کارڈ اتا تو تائی محترمہ کارڈ واپس بھجوا دیتی اور ہماری طرف سے کہلوا بھجتی کہ ہمیں کوئی واسطہ نہیں رکھنا اپ سے ایسے بہت سے لوگ ہم سے ناراض ہو گئے بہت سےدوستوں کی شادی میں شرکت نہ کر سکے کوئی خط پتر آ جاتا تو سارا پڑھ کر دوبارہ سے پیک کر کے ہمیں دیا جاتا سب گھر والے ان حرکتوں سے سخت تنگ تھے اور سارا الزام ہمارے سر آتا کیونکہ اس غلامانہ جوائنٹ سسٹم کو ہم نے ہی توڑا تھا اب ظاہری بات ہے اس کا حل بھی ہمیں ہی کرنا تھا ہم شروع سے ہی دادا جان کے بہت قریب تھے بڑا پوتا ہونے کی وجہ سے دادا جان کے ساتھ لاہور اتے جاتے جہاں دادا جان کی کچھ پراپرٹی تھی جو انھوں نے اپنی زندگی میں ہی بیچ کر ساری اولاد میں تقسیم کر دی تھی بہرحال لاہور انا جانا لگا رہتا تھا جہاں دادا جان اپنے دوستوں اور کچھ رشتے داروں کو ملنے جاتے رہتے تھے اور ہم ہر دفعہ ساتھ جاتے تھے دادا جان کی وفات کے بعد بھی میرا لاہور والوں سے رشتہ اور تعلق قائم تھا
اس دفعہ میں لاہور گیا تو گاڑی میں بیٹھے بیٹھے منصوبہ میرے ذہن میں آ گیا لاہور پہنچ کر ہم نے دادا کے دوست کی طرف سے اپنے نام ایک خط لکھا اور دادا کی ایک دوکان جس کا کسی کو پتا نہیں ہے وہ بیچنے کے لیے مجھے فٹا فٹ لاہور پہنچنے کی ہدائت کی گئی
اور مزید یہ کہ مال روڑ پر دوکانوں کے ریٹ اب لاکھوں سے بڑھ گئے ہیں یہ خط پوسٹ کر کے تیسرے دن ہم واپس گاوں آگئے اور ہمارے گاوں پہنچنے کے ٹھیک اگلے دن تایا جان بوسکی کا سوٹ پہن کر اپنے سالے کو ساتھ لے کر لاہور چلے گئے دو دن بعد تایا جان واپس آئے تو اگلے ہفتے بڑے چاچو اپنے ایک دوست کو ساتھ لے کر لاہور پہنچ گئے اور وہاں کے پٹوار خانے اور تحصیل کے آفسز کی خاک چھانتے رہے خیر پورا ایک مہینہ لاہور کے چکر لگانے کے بعد جب نہ دوکان کا کوئی کھوج ملا اور نہ دادا کے دوست کا پتا چلا تو مشترکہ طور پر فیصلہ کیا گیا کہ خط ہمیں دیا جائے اور پھر ہمارہ پیچھا کیا جائے کہ ہم لاہور کب جاتے ہیں اور وہاں کس کو ملتے ہیں کہاں جاتے ہیں ایسے دوکان کا پتا چل جائے گا اور پھر اس پر مشترکہ طور پر قابض ہو جاہیں گے خط ہمیں دے دیا گیا ہم لاہور کے تمام چکروں سے واقف تھے لیکن ابھی کی سازش کا ہمیں اندازہ تب ہوا جب ہم شہر سبزی لینے جاتے تو چاچو ہمارے پیچھے پیچھے ہوتےپمپ سے ڈیزل لینے جاتے تو تایا پیچھے پیچھے ہوتے شہر بھائی کی فیس دینے جاتے تو تائے کا سالا ہمارہ پیچھا کر رہا ہوتا جب ہمیں اپنی ریکی کا اندازہ ہوا تو ہم بلاوجہ ہی کلف لگے کپڑے پہن کر شہر کے چکر لگانے لگے یقین کریں چچا تایا اور تایا جی کے سالا صاحب راء کے ایجنٹ بنے ہووے تھے ہم پکی سڑک پر ریڑھی والے سے شربت پی رہے ہوتے اور وہ گھنٹہ گھنٹہ دور کھڑے اندازے لگاتے رہتے کہ اب پتا نہیں کہیں لاہور کی بس نہ پکڑ لے دس دن بعد جب تائی کی بہن کے بیٹے کی شادی تھی تو آخر ہمیں ترس آ گیا اپنے کزن کو بتایا کہ کل میرے بھائی کو ساتھ سکول لے جانا میں صبح سحری ٹائم لاہور کے لیے نکل رہا ہوں اس نے کہا ہم نے تو کل شادی پر جانا ہے تو اپ بھائی کو کہیں چھٹی کر لے بہرحال قصہ مختصر جب میں فجر ٹائم پکی سڑک پر پہنچا تو تایا جان اور چچا جان گرمی میں چادر کی بکل مار کر اپنے منہ چھپا کر کھڑے تھے پانچ بجے بس آئی تو ہم الگ الگ بس میں سوار ہو گئے ساڑھے آٹھ بجے بس لاہور یادگار پہنچی تو میں بس کی اگلی کھڑکی سے نیچے اترا مجھے دیکھ کر چچا اور تایا بھی اتر آئے بس چلنے لگی تو میں بس کے پچھلے دروازے سے پھر بس میں بیٹھ گیا 😂😜چچا اور تایا بھاگے اور ایک آٹو رکشہ لے کر بس کے پیچھے لگ گئے یادگار سے زرا ہی اگے بس اسٹنڈ تھا وہاں جا کر ساری بس خالئ ہونا تھی میں بھی نیچے اتر گیا #ایجنٹ حضرات رکشے میں چھپے بیٹھے مجھ پر نظر رکھے ہووے تھے ہم وہاں سے پیدل ہی مینار پاکستان کی طرف چل پڑے وہاں روڈ کے ساتھ بہت رونق ہوتی ہے کہیں ہم کھڑے ہو کر سانپ اور نیولے کی لڑائی دیکھنے لگتے تو کہیں پر کوئی حکیم اپنی دوائئ بھیج رہا ہوتا تو وہاں رک جاتے خیر دو گھنٹے وہاں گزار کر ہم نے چوک یادگار آ کر ناشتہ کیا اور وہاں سے داتا دربار چلے گئے دوپہر تین بجے وہاں سے نکلے اور لکشمی چلے گے اپنے چچا جان اور تایا جان کو مختلف گلیوں سڑکوں کی اور دوکانوں کی سیر کرواتے ہووے مغرب کے بعد رکشہ پکڑا اور پنجاب یونیورسٹی کے ہوسٹل میں ایک دوست کے پاس رات گزارنے پہنچ گئے اب واللہ علم بزرگوں نے رات کہاں گزاری دوسرے دن ہم دن بارہ بجے سو کر اٹھے ڈٹ کے ناشتہ کیا کچھ گھومے پھرے ایک مزید خط اپنے نام پر پوسٹ کیا اور چار بجے والی لاری پکڑ کر گھر واپس آ گئے ہم سے کچھ دو گھنٹے بعد بزرگ حضرات بھی ناکام و نامرد واپس آ گئے تیسرے دن میرا پوسٹ کیا ہوا دوسرا خط آ پہنچا جس میں دادا جی کے ایک بنک اکاونٹ کے متعلق کچھ ہوائی انفارمیشن تھی جس میں دادا جی نے ایک بڑی رقم فکس کروائی ہوئی تھی اور وہ ان کے کسی بھی وارث کو مل سکتی تھی لہذا مجھے دوبارہ لاہور بلایا گیا تھا دوسری لاہور یاترا بہت مزے دار تھی میں لاہور کے کوئی دس بنکوں میں قرضہ کے متعلق انفارمیشن لیتا رہا اور چچا جان بنکوں کے نام لکھتے رہے اور اس کے بعد دو دن ان سب بنکوں سے اپنے والد کی فکس کروائی ہوئی رقم ڈھونڈتے رہے اس دفعہ وہ گاوں سے ہی ٹیکسی کروا کر گئے تھے ٹیکسی والا نارا میرے دوست دیمے کا باپ تھا کچھ تیسرے دن مجھے دیمے نے ہی بتایا کہ سنا ہے کہ اج کل کروڑوں کے چکر میں ہو چچا سے چھپا کر کیا کیا گیم کھیل رہے ہو تمھیں اکیلے نہیں کھانے دیں گے کچھ بھی بہت تپے ہووے ہیں تم پر _میرا مذاق کوئئ نوا چن چڑھا سکتا تھا مجھے لگا کہ یہ مجھے قتل کر گزریں گئے بہتر ہے کہ نئے خط پھاڑ کے پھینک دوں لہذا باہر کے گیٹ کے ایک طرف اپنے نام کی نیم پلیٹ بنوا کر لگائی اور اس کے اوپر ہی ڈور بیل لگا دی واپڈا والوں کی منت کر لی کہ بیل دے کر بل دیا جائے ہماری زندگی تو آسان ہو گئی لیکن چچا لوگ کوئی دو سال تک دوکان اور فکس کی ہوئئ رقم ڈھونڈتے رہے اس واقعے کو پندرہ سال گزر گے کچھ دن پہلے ایک رشتہ دار خاتون نےتائی کو کہا احمد کا وہاں باہر کوئی اچھا کام ہے کیا تو تائی نے کہا ہمارہ ہی حق مار کر بھاگا ہوا ہے دادے کو چونا لگاتا رہا ہے ہمیں بتائے بغیر ہمارہ حصہ کھا گیا ہے حرام کے پیسے ہیں جتنا بھی کمائے حرام ہی ہے 😂😝
شیـــخ چِـــلــّی
No comments:
Post a Comment