Thursday 27 June 2024

چچا چھکن نے مچھلی پکائ.....

 چچا چھکن جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے انہیں دیکھ کر بنو کی چینخ نکل گئی. باورچی خانے سے چچی دوڑی آئیں دیکھا کہ چچا کے منہ پر لگا ماسک خون میں تر ہے ان پر ایسے سوالات کی بوچھار کردی جیسے گودی میڈیا والے حکومت مخالفین پر کرتے ہیں.

ارے یہ کیسے ہوا؟ کس نے مارا؟توڑنے کیلئے بھی منہ ہی ملا تھا؟کیڑے پڑیں ان ہاتھوں میں. کہیں گر گئے تھے کیا؟ یا آج پھر....


اماں یار کچھ نہیں ہوا چچا نے چہرے سے ماسک اتار پھینکتے ہوئے کہا


"کمبخت یہ ماسک بھی کیا مصیبت ہے. تھوکنے سے پہلے ہٹانا یاد ہی نہیں رہا." 


اور اتار اسلئے نہیں رہے تھے کہ تین دن پہلے نکڑ پر پولس سے کھایا ڈنڈا ابھی تک درد دے رہا تھا. چچی ایک تیز نظر ڈال کر باورچی

خانے کی طرف پلٹیں اور ادھر بنو کھلکھلاتی باہر نکل گئ چچا ارے ارےے چلاتے رہ گئے.

 چچا تو کچھ لمحے سر کھجاتے کھڑے رہے. دو تین قدم دیوان خانے کی طرف بڑھائے پھر الٹے پاؤں واپس "جاؤ جاؤ بنا سب کو سنائے چین کہاں آنے والا" بڑبڑاتے ہوئے غسل خانے میں گھس گئے.


یہ لاک ڈاؤن کس چڑیا کا نام ہے چچا کو اتنی زندگی میں تو معلوم نہ ہوسکا. سوچا تھا دو چار دن کے بعد سب معمول پر آجائے گا مگر جب کافی دن گزر گئے تو گھر کی فضا مکدر ہونا شروع ہوگئی.

چچا بھی کتنا وقت گزاری کریں مصروف رہنے کیلئے گھر میں کچھ نہ کچھ کام کرنے کی کوشش کرتے مگر حسب سابق ناکام رہتے. ابھی پچھلے دنوں چچی سے حجت ہوئی تو خود کاڑھا بنایا. چار پیالی کاڑھا بنانے میں دو گھنٹے صرف ہوئے اور ماسوا چچی سب پریشان بھی ہوئے. خود رسوئی میں چولہے کے سامنے بیٹھے ایک ایک سامان منگوایا. بنو پتیلی لائی ودو کاڑھے کا پیکٹ لایا. امامی نے ادرک کوٹی تو للو گرم مصالحہ لایا اور جب کاڑھا بنا تو ایسا جسے وائرس دیکھتے ہی مرجائے. خود بڑی مشکل سے زہر مارکیا اور سب کو زبردستی پینے کیلئے مجبور بھی کیا یہ کہہ کر کہ دیسی دوائیں ایسی ہی رہتی ہیں.

غسل خانے سے نکلے تو پاندان اور حقہ بھرنے کا حکم دے کر میر باقر علی کے ساتھ باہر کھٹیا پر بیٹھے حالات حاضرہ پر لگے تبصرہ کرنے . یہ وائرس چین کی سازش ہے یا امریکہ کی. وائرس کا وجود ہے بھی یا نہیں .یہ اسلام کے خلاف سازش ہے. پوری دنیا کی معیشت تباہ کرنے کی سازش ہے. سارے سیاست دان ڈاکٹرس ملے ہوئے ہیں. وغیرہ. روزانہ کے یہی عنوانات تھے جو تشنہ رہ جاتے تھے. کئ بار گھر میں خبر بھیجنے کے بعد بھی حقہ اور پاندان بھرا نہیں گیا تو تلملاتے ہوئے اندر گئے.


"اگر پاندان اور حقہ نہیں بھرنا تو صاف صاف کیوں نہیں بلوا دیتے ایں." 


کس نے کہا نہیں بھرنا دیکھتے نہیں کہ میں مچھلی دھو رہی ہوں کام ختم کرکے بھر دیتی. چچی نے بھی جھلاتے ہوئے کہا.


"ایک تو اتنی چھوٹی چھوٹی بساند بھری مچھلیاں ہیں حالت خراب ہوگئی ہے دھوتے دھوتے" 

 

"ہم نے بساند بھری ہے اس میں یا اتنی چھوٹی ہم لائے بازار سے تالاب سے شکار کی گئی مچھلیاں ایسی ہی ہوتی ہیں." اپنے بیٹے پر غصہ اتارو کہ بڑی مچھلی کیوں نہیں لایا. 


"ارے تو تم کون سی بام اور مرغا مچھلی لاتے ہو اس سے آدھا ایک انچ بڑی ہی تو رہتی ہیں." چچی نے بھی ترکی بہ ترکی جواب دیا.


 چچا اس جواب سے بری طرح سٹپٹا کر بولے اگر نہیں طبیعت ہورہی بنانے کی نہ بناؤ. ہم آپ بنالیں گے مچھلی. کیا ہمیں نہیں آتا مچھلی بنانا.

چچی جانتی تھیں کہ چچا مچھلی تو دور چائے بھی نہیں بناسکتے مگر کیا ذہن میں سمایا فوراً اٹھ کھڑی ہوئیں .

" مچھلی دھل گئ ہے مسالہ پیسا ہوا ہے.بنانے کا شوق پورا فرمالیں میں پاندان اور حقہ بھرے دیتی ہوں" کہتی ہوئی چچی یہ جا وہ جا.. 

چچا ہکا بکا دیکھتے رہ گئے. کہ یہ خلاف توقع بات کیسے ہوگئی. ترنگ میں کہہ تو دیا اب انکار کرنے میں مزید بے عزتی تھی. تاؤ میں آکر بلند آواز سے چچی کو سنانے کیلئے کہا. 

ہاں بنالیں گے بھئ، تاریخ شاہد ہے لذیذ کھانے ہمیشہ مردوں نے ہی بنائے ہیں. کسی بادشاہ نے کبھی خاتون خانساماں رکھا ہو تو بتاؤ. دال سبزی بنانے والیاں کیا جانیں شاہی پکوان کیسے ہوتے ہیں.

 چند لمحے داڑھی سہلاتے کھڑے رہے سامنے دیکھا تو للو غریب تختی لیے بیٹھا نظر آیا اسے پیار سے بلایا اور کہا بیٹا للو آج ہم بنائیں گے مچھلی اور تم کرو گے ہماری مدد. دیکھنا ایسی لذت دار بنائیں گے کہ ہمیشہ یاد رکھیں گے سب. چلو اٹھو شاباش آؤ رسوئی میں.

لیجیے چچا رسوئی میں بیٹھے اور شروع ہوا تگنی کا ناچ. 

ایک برتن میں سلیقے سے مچھلیاں رکھی ہوئی تھی. اب پہلی بات چچا کے دماغ میں آئی اسے مصالحہ لگا کر تلنا پھر سالن بنانا ترکیب کیلئے یو ٹیوب زندہ باد.

بیٹھتے ہی جھٹ للو سے کہا. 

" للو ذرا اماں سے پوچھو تکا مسالہ کہاں ہے بھلا. "چچی نے سنا تو بآواز بلند چچا کو سناتے ہوئے للو سے کہا 

"تمام چیزیں وہیں موجود ہیں جو نہیں اسے پنساری کے یہاں سے منگوالو اور خبر دار جو میرے پاس کچھ پوچھنے آیا کہ یہ کہاں ہے اور وہ کہاں ہے. لے یہ پان لے جا." 

چچا نے سنا تو سلگ کر رہ گئے. 

ابے چھٹن،مودے، امامی او امامی کہاں مرگئے سب کے سب. ادھر کام نکلا ادھر غائب. کام کے نہ کاج کے دشمن اناج کے. امامی باہر موبائل میں مست تھا آواز سن کر آیا.


"امامی،! ذرا مچھلی تکہ مسالہ لانا جھپاک سے. اچھے والا لیجو اور سنو انڈا، انڈا بھی تو نہیں ہے چھ عدد انڈے بھی لے لینا.“

امامی نکلا ہی تھا کہ یادآیا دہی بھی تو لگے گی. امامی امامی چلاتے رہ گئے مگر وہ تو جاچکا تھا.

اے چھٹن جلدی پیچھے جائیو امامی کے کہنا آدھ پاؤ دہی بھی لیتے جاؤ اور سن کھٹی دہی لینا میٹھی دہی کسی کام کی نہیں ہوتی.


پان کی گلوری منہ میں رکھتے ہوئے بولے

ہاں تو بھائی للو چلو اس بھگونے میں مسالہ ملاتے ہیں.  

وہ دیکھو امامی بھی آگیا. یوں کرو کہ بھگونے میں انڈے ڈالو

للو نے ویسے ہی ڈال دئے تو تڑخ کر بولے "ابے بے وقوف، انڈے پھوڑ کر ڈال" اور چھلکے باہر پھینکنا وہ بھی مت ڈال دینا کمبخت "

لیجیے للو نے مسالہ ملایا تو خود اس میں مچھلی کی بوٹیاں اچھی طرح ملا دیں تلنے کیلئے تیل اور ایک عدد کڑاہی کی ضرورت تھی .ننھے نے کڑاہی نکالی چچا نے تیل گرم کرنے کیلئے رکھا ہی تھا کہ اسی لمحے مسالے کی بو ناک میں چڑھی، ایک زور دار چھینک آئی اور پان کی پیک مچھلی کے بھگونے میں.

وہ تو اچھا ہوا کہ مسالہ بھی لال رنگ کا ہی تھا. کنکھیوں سے دیکھا تو للو مسکرارہا تھا.


"ہنستا کاہے کو ہے بے. چھینک ہی تو آئی ہے."


ہوا یوں کہ رات میں چچی نے امامی سے گلاب جامن کا شیرہ منگوایا تھا. جسے چچی نے تیل کی کین کے پاس ہی رکھ دیا تھا. چچا نے بھی تیل سمجھ کر اسے چولہے پر چڑھا دیا. شیرہ گرم ہوا تو چچا نے بھگونے سے مچھلی کی بوٹیاں نکال کر کڑاہی میں ڈالنا شروع کیا. اور فاتحانہ انداز سے بولے

"یار للوے! دیکھ ہمارا تکا تو تیار ہورہا ہے. بن جائے تو منشی جی اور میر باقر علی کے گھر ضرور دینا. کہنا مت بھولنا کہ آج ہم نے بنایا ہے." 

کافی دیر تک مچھلی کی بوٹیاں ویسی کی ویسی نرم ہی رہیں تو چچا کا ماتھا ٹھنکا. بولے یہ تلی کیوں نہیں جارہی ہیں. اسی دوران امامی رسوئی کے دروازے پر آیا کچھ عجیب بو سے معاملہ سمجھ گیا کیا ہوا ہے. بتایا کہ آپ نے تیل کی جگہ شیرہ جو ڈال دیا ہے. اب اس کے قہقہے رکنے کا نام نہ لے رہے تھے جسے سن کر چچی، چھٹن، ودو، ننھے مودے سبھی آگئے. چچا کی حالت دیکھنے لائق تھی.کڑاہی سے مچھلی نکالی کچھ سوچا واپس اسی میں ڈال دی. پھر کڑاہی اتاری. خیال آیا کہ اسے خالی کرلیں. مگر بڑھتا ہوا درجہ حرارت اجازت نہیں دے رہا تھا. آخر غصہ کریں تو کس پر.کمال ضبط کا مظاہرہ کیا. خاموشی سے اٹھے. پیچ وتاب کھاتے گھر سے باہر نکل گئے.چچی کی آواز سنائی دی میٹھی مچھلی تو کھاتے جائیں. کئ قہقہے ایک ساتھ بلند ہوئے جسے چچا کیلئے ان سنی کرنا ہی بہتر تھا.....

#Mahey

No comments:

Post a Comment

قوم اور گدھا

 بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ ...