Thursday, 27 June 2024

قوم اور گدھا

 بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ پوچھ لی۔ 

ایک بوڑھے نے بمشکل اپنی ہنسی پر قابو پاتے ہوئے کہا: ہمارے پاس اس ملک کے مسائل حل کرنے کیلیئے ایک شاندار منصوبہ ہے۔ 

اور وہ منصوبہ یہ ہے کہ ساری قوم کو جیل میں ڈال دیا جائے اور ان سب کے ساتھ ایک گدھا

چچا چھکن نے تصویر ٹانگی

چچا چھکن کبھی کبھار کوئی کام اپنے ذمے لے لیتے ہیں،گھر بھر کو تنگی کاناچ نچادیتے ہیں ۔”آبے لونڈے ،جابے لونڈے ،یہ کیجو،وہ کیجو“گھربازار ایک ہو جاتا ہے۔دورکیوں جاؤ،پرسوں پر لے روز کا ذکر ہے ،دکان سے تصویر کا چوکھٹا لگ کر آیا۔اس وقت تو دیوان خانے میں رکھ دی گئی کل شام کہیں چچی کی نظر اس پر پڑی بولیں ،”چھٹن کے ابا تصویر کب سے رکھی ہوئی ہے ،خیر سے بچوں کا گھر ٹھہرا ،کہیں ٹوٹ پھوٹ گئی تو بیٹھے بٹھائے روپے دور وپے کا دھکا لگ جائے گا،کون ٹانگے گا اس کو؟

”ٹانگتا اور کون،میں خود ٹانگوں گا کون سی ایسی جوئے شیرلانی ہے۔


رہنے دو،میں ابھی سب کچھ خود ہی کر لیتا ہوں“

چچا چھکن نے مچھلی پکائ.....

 چچا چھکن جیسے ہی گھر میں داخل ہوئے انہیں دیکھ کر بنو کی چینخ نکل گئی. باورچی خانے سے چچی دوڑی آئیں دیکھا کہ چچا کے منہ پر لگا ماسک خون میں تر ہے ان پر ایسے سوالات کی بوچھار کردی جیسے گودی میڈیا والے حکومت مخالفین پر کرتے ہیں.

ارے یہ کیسے ہوا؟ کس نے مارا؟توڑنے کیلئے بھی منہ ہی ملا تھا؟کیڑے پڑیں ان ہاتھوں میں. کہیں گر گئے تھے کیا؟ یا آج پھر....


اماں یار کچھ نہیں ہوا چچا نے چہرے سے ماسک اتار پھینکتے ہوئے کہا


"کمبخت یہ ماسک بھی کیا مصیبت ہے. تھوکنے سے پہلے ہٹانا یاد ہی نہیں رہا." 


اور اتار اسلئے نہیں رہے تھے کہ تین دن پہلے نکڑ پر پولس سے کھایا ڈنڈا ابھی تک درد دے رہا تھا. چچی ایک تیز نظر ڈال کر باورچی

Wednesday, 26 June 2024

سائنس لیبارٹری کا سکہ

 ٹیچر نے

سائنس لیبارٹری میں ایک ایسڈ میں سکہ ڈالا

اور پوچھا

بتاؤ یہ سکہ ایسڈ میں گھل جائے گا یا نہیں؟

میں نے کافی غور و فکر کرنے کے بعد جواب دیا

''نہیں گھلے گا''

سر نے وجہ پوچھی تو میں نے کہا 

میری سادگی دیکھ

مزاحیہ تحریر

یوسفی صاحب بتاتے ہیں کہ راستے میں ایک بار ویسپا سکوٹر پر جاتے ہوئے سامنے ایک کتا آگیا.


اس کو بچانے کے چکر میں کنٹرول میری گرفت سے نکل گیا اور میں اسکوٹر سمیت سڑک کی بغل والے نالے میں گر گیا. 

وکیل اور مرغابی والے دیہاتی ک قصہ

 نیویارک کا ایک مشہور و معروف وکیل ٹیکساس کے دیہی علاقے میں مرغابی کا شکار کرنے گیا۔ اس نے ایک مرغابی کو گولی مار کر گرا تو دیا لیکن بدقسمتی سے وہ باڑ کی دوسری طرف ایک کسان کے کھیت میں جا گری۔ جیسے ہی وکیل باڑ پر چڑھا، ایک بوڑھا کسان اپنے ٹریکٹر پرنمودار ہوا اور سوال کیا کہ تم یہاں کیا کر رہے ہو؟

 وکیل نے جواب دیا، " میں نے ایک مرغابی کو گولی ماری اور وہ اس کھیت میں گر گئی، اب میں اسے لینے جا رہا ہوں۔ "

 بوڑھے کسان نے جواب دیا۔ " یہ کھیت میری ملکیت ہے اور تم یہاں داخل نہیں ہوسکتے۔ "

 " میرا شمار امیریکا کے نامور وکلاء میں ہوتا ہے اور اگر تم نے مجھے مرغابی حاصل کرنے کی اجازت نہیں دی تو میں تم پر مقدمہ کر دوں گا اس کے بعد جو کچھ تمہارا ہے وہ میرا ہو جائے گا۔" وکیل نے جواب دیا۔

قصہ تایا جی کا

 دو ہزار چھ میں ہم جوائنٹ فیملی سسٹم سے الگ ہووے تو چچی تائی سب ہمارے سخت خلاف ہو گئے ان کو فرنٹ والا پورشن ملا تو ہمیں سزا کے طور پر پیچھے بھیج دیا گیا بجلی کا بل اتا تو چھپا دیا جاتا تین ماہ بعد میٹر کاٹنے والے اتے تو پتا چلتا کہ اتنا بل بنا ہوا تھا ترلہ منت کر کے ان سے جان چھڑاتے کوئئ شادی کا کارڈ اتا تو تائی محترمہ کارڈ واپس بھجوا دیتی اور ہماری طرف سے  کہلوا بھجتی کہ ہمیں کوئی واسطہ نہیں رکھنا اپ سے ایسے بہت سے لوگ ہم سے ناراض ہو گئے  بہت سےدوستوں کی  شادی میں شرکت نہ کر سکے کوئی خط پتر آ جاتا تو سارا پڑھ کر دوبارہ سے پیک کر کے ہمیں دیا جاتا سب گھر والے ان حرکتوں سے سخت تنگ تھے اور سارا الزام ہمارے سر آتا کیونکہ اس غلامانہ جوائنٹ سسٹم کو ہم نے ہی توڑا تھا اب ظاہری بات ہے اس کا حل بھی ہمیں ہی کرنا تھا ہم شروع سے ہی دادا جان کے بہت قریب تھے بڑا پوتا ہونے کی وجہ سے دادا جان کے ساتھ لاہور اتے جاتے جہاں دادا جان کی کچھ پراپرٹی تھی جو انھوں نے اپنی زندگی میں ہی بیچ کر ساری اولاد میں تقسیم کر دی تھی بہرحال لاہور انا جانا لگا رہتا تھا جہاں دادا جان اپنے دوستوں اور کچھ رشتے داروں کو ملنے جاتے رہتے تھے اور ہم ہر دفعہ ساتھ جاتے تھے دادا جان کی وفات کے بعد بھی میرا لاہور والوں سے رشتہ اور تعلق قائم تھا 

اس دفعہ میں لاہور گیا تو گاڑی میں بیٹھے بیٹھے منصوبہ میرے ذہن میں آ گیا لاہور پہنچ کر ہم نے دادا کے دوست کی طرف سے اپنے نام ایک خط لکھا اور دادا کی ایک دوکان جس کا کسی کو پتا نہیں ہے وہ بیچنے کے لیے مجھے فٹا فٹ لاہور پہنچنے کی ہدائت کی گئی

قوم اور گدھا

 بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ ...