Wednesday, 29 July 2020

کجھ یاد ہئی گرم مزاج دا مالک سانوں ویکھ کے سرد

جیہنوں ویکھ کے ڈاڈھا خوش ہونداؤں نالے آھد

جہنوں ویکھ کے ڈاڈھا خوش ہونداؤں نالے آھدا ہاؤں بسم اللّٰہ

دیہنہ عید دے لڑنا سجنڑاں نال اے تاں کوئی ناہ چن دستور

دیہنہ عید دے لڑنا سجنڑاں نال اے تاں کوئی ناہ چن دستور اے
بندے پچھلیاں کیتیاں بھل ویندن نئیں راندے انج مغرور اے

ساڈے سامنڑے عید دا ناں نہ لئے ساڈے غمیاں اچ نام لکھی

ساڈے سامنڑے عید دا ناں نہ لئے  ساڈے غمیاں اچ نام لکھی گئے
تقدیر دے سخت ولہونڑیاں وچ  ساڈے  زلفی سجنڑ کھڑی گئے

ہوندی عید تاں وطن تے خوشیاں دی ہر بشر

ہوندی  عید  تاں  وطن  تے  خوشیاں  دی ہر بشر دے کانڑ نوید اے 
کیڈا  میں  بدبخت  ہاں  عید  دا  سنڑ کے ودھ

حالات وی دشمنڑ تے تیرے سجنڑ وی دشمنڑ اُتوں تیریاں بے

حالات وی دشمنڑ تے تیرے سجنڑ وی دشمنڑ اُتوں تیریاں بے پرواہیاں
جداں ساہ آرام دا نئیں آندا بھٹھ گھتیئے تاج تے شاہیاں
توئیں کیوں چا پائیاں اَن ہ

تینوں لگدا کدنڑ امیر بنڑیئندن توئیں بندے دی کے اوقا

تینوں لگدا کدنڑ امیر بنڑیئندن توئیں بندے دی کے اوقات اے
 اِنجیں خواب نہ ویکھ محلاں دے کجھ ویکھ اپنڑیں حالات اے
زردار انسان دی نوکری وِچ بھانویں ہک چا کر دِہنہ رات اے
انہاں وَت وی درد غریب سمجھ کے تیری کائی نئیں پُچھنڑی بات اے

آئیاں اٹھ ہک پہر پراہنڑیاں وانگوں بختاں دیاں

آئیاں اٹھ ہک پہر پراہنڑیاں وانگوں بختاں دیاں رانڑیاں رُتیں
سجنڑاں دیاں باہیں دے گھیریاں وچ دلچسپ وہانڑیاں رُتیں
جداں یکدم غلط نصیباں نوں اُوہ درد نہ بھانڑیاں رُتیں
وت سدیاں ای کئیں نئیں سد سُنڑیا کتھوں لبھن پُرانڑیاں رُتیں

عدم سلسلہ

اوہنوں قاصد ڈھیر تاکید کریں آکھیں عدؔم تیرا بیمار اے
جے ڈھک پووی ڈھول تے اپڑن کر ڈھل گھت نئیں ککھ سرکار اے
اگ لا پردیس دی شاھی نوں پیا کردائی منت لاچار اے
ہیسو وقت نزع جھب پرت مہاراں چھڈ روسے سجن ہنجار اے

میں ویندا ہاں پر مننڑیں کائی نِس کر میرے بھرم تباہ نئیں
اوہدے کل وی ترلے سئے کیتن کیتی سنگدل ککھ پرواہ نئیں
نئیں نئیں قاصد توں  لازمی ونج

اللہ پاک دے اوپرے رنگ ویکھن ڈھل بخت گںۓ اڈوں عید آ

اللہ پاک دے اوپرے رنگ ویکھن ڈھل بخت گںۓ اڈوں عید آ گںٸ
ھن ویس ملوٹے دامن تے پۓ وخت گںۓ اڈوں عید آگںٸ
کجھ یار رویۓ سجنڑاں دے۔تھی سخت گںۓ۔اڈوں عید آگںٸ
بس را ٕ ساٸیں میڈی الفت دے ڈھںۓ تخت گںۓ اڈوں عید آگںٸ

میری ھُنڑ دی نبھے تے وت دی توبہ ایں جے میں ھور کینہہہ ت

میری ھُنڑ دی نبھے تے وت دی توبہ ایں جے میں ھور کینہہہ تے وِساں
میرے تھرکنڑیں ماس ھو بھسم گٸے تے وجود نوں کھا گٸیاں لِساں
انج اپنڑاں آپ تباہ چا کیتم ناں اپنڑیں آپ تے وِساں
وت را ٕ ساٸیں یار نوں ملنڑ دیاں ھِن بلکل مک گٸیاں حساں

مینوں رو کے بشر ھک آھدا ھا تینوں کی پرچائیں اج عید

مینوں رو کے بشر ھک آھدا ھا تینوں کی پرچائیں اج عید اے
جہندی یاد اچ توں بیمار پیاں اونہوں ھِن اطلاعیں اج عید اے
مندے حال بنڑا نہی آ ویسی تیرے وطن تے سائیں اج عید اے
اٹھی کپڑے پا کائنات دے وچ معذور ہبدائیں اج عید اے

اوہدی آس تے کسّر نہ بلکل رہے اُس نوی

اوہدی آس تے  کسّر  نہ بلکل رہے  اُس نویں جاہ سنگت بنڑا لںٸ اے۔
اکھیں  ویکھ  کے  آیاں  غیراں  دی  اُس  مہندی ہتھ  تے  لا لںٸ اے۔
اُس عید کراونڑ کوںٸ نٸوں آونڑا  جٸیں تیتھوں چوک چھڑا لںٸ اے۔
ھونڑ  ماتم  کر  بھاویں  عید  منا  اُس  غیر  دی سیج  سجا لںٸ اے۔

سداں عید تے ساونڑ کئ نہئوں رلنڑیں ربوں بنڑ گیا ہئ جوڑ دوہاں د

سدا عید تے ساونڑ کئ نہئوں رلنڑیں ربوں بنڑ گیا ہئ جوڑ دوہاں دا
بندے وطن تے عیداں آنڑ کریندن وڈا مانڑ ہونداۓ سجنڑاں دا
مینوں وسنڑ دا چھوڑ وسیب دے وچ پراں چھوڑ خیال کنہاں دا
متاں درد دی آخری عید ہووۓ کہڑا سجنڑ وساہ ہے سانہاں دا

ڈھاندی نیک نہ چاڑ غریباں تے نبھ ویسن ڈنگ تنہائی دے

ڈھاندی نیک نہ چاڑ غریباں تے نبھ ویسن ڈنگ تنہائی دے
مینوں چاننڑ ہا دئہوں تھوڑے ھوندن میرا چن امداد پرائی دے
جداں کل نفرت دے نال بھنوائے نی میلے ھاڑے درد رسوائی دے
کہڑے نک دے نال گھلیندا وتنائیں ہنڑ مڑ پیغام رسائی دے
ایک بچہ چوکولیٹ کھا رھاتھا تو آدمی نے کہا،،اتنے زیادہ چوکولیٹ کھانا اچھا نھیں ھوتا
بچے نے کہا،،،،میرے دادا جی
ایک مولوی صاحب کھیتوں سے گزرے ،کیا دیکھا کہ ایک بیل کنوے کے گرد گھومے جارہا ہے اور پانی نکل رہا ہے ، مولوی صاحب نے دیکھا کہ آس پاس بھی کویی نہیں اور بیل اپنا کام بھی کر رہا ہے ، جب ادھر اُدھر دیکھا تو کچھ دور ایک

ایک پگڑی والے صاحب رات کے وقت موٹ

ایک پگڑی والے صاحب رات کے وقت موٹر سائیکل پہ جا رہے تھے سامنے ٹھنڈی ہوا چل پڑی تو
ایک نوجوان نیا نیا پولیس میں بھرتی ہوا۔ اس کی ڈیوٹی جیل میں لگی تو اس کو جیلر نے بتایا کہ چونکہ ہماری تنخواہ کم ہوتی ہے تو اس لئے اوپر کی آمدنی یعنی رشوت بہت ضرروی ہے، لیکن اس کو ہم رشوت نہیں بلکہ چائے پانی کہتے ہیں۔

ملا نصرالدین کو خطبہ دینے کی دعوت دی گئی

ایک مرتبہ ملا نصرالدین کو خطبہ دینے کی دعوت دی گئی۔ مگر ملا اس خطبہ کے لیے دل سے راضی نہیں تھے۔ خیر، ممبر پہ کھڑے ہوکر ملا نے حاضرین سے خطب کرتے ہوئے پوچھا ‘‘
ایک مرتبہ ملا نصر الدین اپنے گھر کے آنگن میں بیٹھے تھے، ان کے ایک دوست نے ان آکر پوچھا کہ، ملا مجھے ضروری کام سے پاس کے گاؤں جانا ہے، اور کچھ سامان لے جانا ہے، براہ کرم، آپ کا گدھا دیں گے تو، میں اسے لے جاؤں گا اور شام
کسی جنگل میں بندروں کا ایک غول رہتا تھا اس جنگل میں چونکہ بہت زیادہ تعداد میں پھل وغیرہ اُگتے تھے اس لیے وہ سب بندر بہت اطمینان اور خوشی سے رہتے تھے۔
ایک کتا جنگل میں راستہ بھول گیا۔ ابھی وہ کچھ سوچ ھی رھا تھا کہ شیر کے دھاڑنے کی آواز آئی۔ کتا دل ھی دل میں بولا آج تو موت پکی ھے۔ اِسی اثنا میں اُسے اپنے قریب پڑے ایک جانور کا ڈھانچہ نظر آیا۔ یکدم اُسے ایک ترکیب سوجھی اور اُس نے ایک ہڈی اُس ڈھانچے سے نکالی، اِس دوران شیر اُس کے قریب پہنچ گیا۔
ایک دفعہ ملا نصیر الدین بازار سے جا رہے تھے کہ پیچھے سے کسی نے انہیں زور سے تھپڑ مارا۔

ملا صاحب نے غصے سے پیچھے دیکھا، وہ شخص گھبرا کر بولا۔

"معاف کرنا میں سمجھا، میرا دوست ہے"

ملا صاحب نے کہا. "نہیں، چلو عدالت چلتے ہیں۔ "

ﺍﯾﮏ ﭘﺎﮐﺴﺘﺎﻧﯽ ﺍﻧﺠﯿﻨﺌﺮ ﮐﻮ ﺟﺎﺏ ﻧﮧ ﻣﻠﯽ ﺗﻮ ﺍﺱ ﻧﮯ ﮐﻠﯿﻨﮏ
ﮐﮭﻮﻻ ﺍﻭﺭ ﺑﺎﮨﺮ ﻟﮑﮭﺎ ۔ ۔ ۔
'' ﺗﯿﻦ ﺳﻮ ﺭﻭﭘﮯ ﻣﯿﮟ ﻋﻼﺝ ﮐﺮﻭﺍﺋﯿﮟ, ﺍﮔﺮ ﻋﻼﺝ ﻧﮩﯿﮟ ﮬﻮﺍ ﺗﻮ ﺍﯾﮏ ﮬﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯ ﻭﺍﭘﺲ '' ۔
ﺍﯾﮏ ﮈﺍﮐﭩﺮ ﻧﮯ ﺳﻮﭼﺎ ﮐﮧ ﺍﯾﮏ ﮪﺰﺍﺭ ﺭﻭﭘﮯ ﮐﻤﺎﻧﮯ ﮐﺎ ﺍﭼﮭﺎ ﻣﻮﻗﻊ ﮬﮯ۔ ﻭﮦ ﮐﻠﯿﻨﮏ ﭘﺮ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺑﻮﻻ : ﻣﺠﮭﮯ ﮐﺴﯽ ﺑﻬﯽ ﭼﯿﺰ ﮐﺎ ﻣﺰﮦ ﻧﮩﯿﮟ ﺁﺗﺎ . ﻣﯿﺮﺍ ﭨﯿﺴﭧ ‏) ﺫﺍﺋﻘﮧ ‏( ﺧﺮﺍﺏ ﮬﮯ۔
ﺍﻧﺠﯿﻨﺌﺮ ﻧﮯ ﻧﺮﺱ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ : ﺑﺎﮐﺲ ﻧﻤﺒﺮ 22 ﻣﯿﮟ ﺳﮯ ﺩﻭﺍﺋﯽ ﻧﮑﺎﻟﻮ ﺍﻭﺭ 3 ﺑﻮﻧﺪﯾﮟ ﺍﺱ ﻣﺮﯾﺾ ﮐﻮ ﭘﻼ ﺩﻭ۔
اولاد تو پھر اولاد ھے !
امی میں کیسے پیدا ھوا تھا ؟ منے نے کچن میں مصروف ماں سے سوال کیا ،،
بیٹا میں نے مٹی ایک ٹھیکرے میں ڈال کر اس میں پانی ڈال دیا تھا ،، کچھ دنوں کے بعد دیکھا تو تم بنے ھوئے تھے ،، امی نے ھانڈی میں جھانک کر اپنی مسکراھٹ چھپا لی تھی
مجھے یقین ہے کہ آپ اپنی ہنسی روک نہیں پائینگے

ایک غریب آدمی روزانہ ایک کاغذ پر “اے میرے پروردگار مجھے پچاس ہزار روپے بھیج دے” لکھ کر غبارے میں ڈالتا اور آسمان کی طرف اڑا دیتا تھا۔
ملا نصیر الدین اپنے دوستوں کو شکار کے فرضی قصے سناتا رہتا تھا کہ ایک مرتبہ دوست اسے شکار پر لے گئے ایک مرغابی پانی کی سطح پر تیرتی ہوئی نظر آئی
ایک چرسی دوسرے سےتمہیں معلوم ہے میرے والد صاحب کا اتنا بڑا باغ ہے کہ 100 سال چ
ایک چرسی دوسرے سے
تمہیں معلوم ہے میرے والد صاحب کا اتنا بڑا باغ ہے کہ 100 سال چلتے رہو تب بھی ختم نہ ہو
ایک بڑھیا تھی۔ وہ بڑھیا اپنا سارا گہنا پاتا پہن کر کہیں جا رہی تھی۔ گہنا کیا تھا؟ یہی کانوں میں جھمکے تھے۔ باہوں میں گنگن تھے اور گلے میں ہار تھا۔ مگر یہ سارے زیور تھے سونے کے۔ بے چاری بڑھیا کے پیچھے دو ٹھگ لگ گئے۔ دونوں بڑے چال باز، مکار اور عیار تھے۔ دونوں آپس میں گہرے دوست تھے۔دونوں چاہتے تھے کہ بڑھیا سے سارے کا سارا زیور ہتھیا لیں۔ لیکن بڑھیا نے بھی اپنے بال دھوپ میں سفید نہیں کیے تھے،
وہ ٹھگ تو ٹھگ تھے ہی…. یہ بڑھیا ان کی بھی نانی تھی۔ایک ٹھگ نے آگے بڑھر علیک سلیک کے بعد پوچھا کہ بڑی اماں کہاں جا رہی ہو؟بیٹا! شہر جا رہی ہوں بڑھیا نے جواب دیا۔پھر تو
ایک آدمی کی جرابوں سے سخت بدبو آتی تھی۔ وہ جہاں جوتا اتارتا لوگ دور دور بھاگ جاتے۔ ایک مرتبہ اس کی بیوی کے رشتہ داروں میں شادی تھی۔ لہذا اس نے اپنے خاوند کو نئی
پر نام سنگھ نے نئی کار خریدی۔ پہلے روز ہی لانگ ڈرائیو کے لئے سڑک پر آگیا۔ گھر سے تھوڑی دور ہی گیا تھا کہ کار ایک دودھ والے کی سائیکل سے ٹکرا گئی ، دودھ بیچنے والا موٹا پہلوان تھا۔ وہ نیچے گرا ، ہلکی پھلکی چوٹیں آئیں ، دودھ سڑک پر بہہ گیا، سائیکل کا ”چمٹا “ ٹیڑھا

دم کی شان

دم کی شان 
جناب ! دُم کی عجب نفسیات ھوتی ھے
کہ اس کی جنبشِ ادنیٰ میں بات ھوتی ھے 

وفا کے جذبے کا اظہار دُم ھلانا ھے
جو دُم کھڑی ھو وہ نفرت کا تازیانہ ھے

جو لمبی دُم ھے وہ عالی صفات ھوتی ھے
جو مختصر ھے وہ بڑی واھیات ھوتی ھے

بریک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اک روز کہیں سائیکل پہ جارہے تھے ہم
پہنچے جو اک موڑ پہ نازل ہوا ستم
پیڈل سے سائیکل کے جو پاؤں اکھڑ گئ
کدی تے پیکےجا نی بیگم
آوے سکھ دا ساہ نی بیگم

کٹھیاں رے رے اک گئے آں ہن
لاگے بہہ بہہ تھک گئے آں ہن
ٹینڈیاں ونگوں پک گئے آں ہن
گھرنوں چھیتی آ وے بیبا
اینج تے ناں تڑپا وے بیبا
سانوں چوٹھے لارے لا کے
یاراں دے نال شام منا کے
باہروں پی کے باہروں کھا کے
آ جانا اے رات لنگھا کے
ایک دفعہ ایک ملک کا بادشاہ بیمار ہو گیا، جب بادشاہ نے دیکھا کے اس کے بچنے کی کوئی امید نہیں تو اس نے اپنے ملک کی رعایا میں اعلان کروا دیا کہ وہ اپنی بادشاہت اس کے نام کر دے گا جو اس کے مرنے کے بعد اس کی جگہ ایک رات قبر میں گزارے گا،
 سب لوگ بہت خوفزدہ ہوئے اور کوئی بھی یہ کام کرنے کو تیار نہ تھا، اسی دوران ایک کمہار جس نے ساری زندگی کچھ جمع نہ کیا تھا ۔ اس کے پاس سوائے ایک گدھے کے کچھ نہ تھا اس نے سوچا کہ اگر وہ ایسا کرلے تو وہ بادشاہ بن سکتا ہے اور حساب کتاب میں کیا جواب دینا پڑے گا اس کے پاس تھا ہی کیا ایک گدھا اور بس! سو اس نے اعلان کر دیاکہ وہ ایک رات
پاکستانی عدالتوں کو سمجھنے کے لیے ضرور بڑھیئے اور شیئر کریں- شکریہ

ﺍﯾﮏ ﺷﺨﺺ ﺍﯾﮏ ﺫﺑﺢ ﮐﯽ ﮨﻮﺋﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﻟﮯ ﮐﺮ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺁﯾﺎ ﺍﻭﺭ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ " ﺑﮭﺎﺋﯽ ﺫﺭﺍ ﺍﺱ ﻣﺮﻏﯽ ﮐﻮ ﮐﺎﭦ ﮐﺮ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ "
ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵﻧﮯ ﮐﮩﺎ " ﻣﺮﻏﯽ ﺭﮐﮫ ﮐﺮﭼﻠﮯ ﺟﺎﺅ ﺍﻭﺭ ﺁﺩﮬ ﮔﮭﻨﭨﮯ ﺑﻌﺪ ﺁ ﮐﺮ ﻟﮯ ﺟﺎﻧﺎ "
ﺍﺗﻔﺎﻕ ﺳﮯﺷﮩﺮ ﮐﺎ ﻗﺎﺿﯽ ﻣﺮﻏﯽ ﻓﺮﻭﺵ ﮐﯽ ﺩﻭﮐﺎﻥ ﭘﺮ ﺁ ﮔﯿﺎ ﺍﻭﺭ ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﺳﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ " ﯾﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﻣﺠﮭﮯ ﺩﮮ ﺩﻭ "
ﺩﻭﮐﺎﻧﺪﺍﺭ ﻧﮯ ﮐﮩﺎ ﮐﮧ " ﯾﮧ ﻣﺮﻏﯽ ﻣﯿﺮﯼ ﻧﮩﯿﮟ ﺑﻠﮑﮧ ﮐﺴﯽ ﺍﻭﺭ ﮐﯽ ﮪﮯ ﺍﻭﺭ ﻣﯿﺮﮮ ﭘﺎﺱ ﺑﮭﯽ ﺍﺑﮭﯽ
ایک ریچھ اور ایک مینڈک جنگل میں جا رہے تھے جب اچانک انہوں نے دیکھا کہ چڑیا پھندے میں پھنسی ہے اور مدد کے لیے پکار رہی ہے۔ دونوں نے ملکر چڑیا کو آزاد کرایا تو چڑیا اچانک ایک پری بن گئی اور شکریہ ادا کر کے کہنے لگی کہ تم دونوں کی تمھارے جسامت کے مطابق خواہشیں پوری کرسکتی ہوں۔ ریچھ چونکہ بڑا ہے اس لیے اسکی 2 خواہشیں پوری کروں گی اور مینڈک کی 1 خواہش پوری ہوگی۔ 

ابوظہبی میں تین دوست
جن میں ایک پاکستانی ایک انڈین اور ایک فلپائنی اکٹھے رہتے تھے
ان تینوں کو ایک جرم میں بیس بیس کوڑوں کی سزا سنا دی گئی
جس دن سزا پر عمل درآمد ہونا تھا
اس دن وہاں کا کوئی قومی تہوار تھا
قاضی صاحب نے اعلان کیا کہ سزا تو لازمی دی جائے گی لیکن ھمارے قومی تہوار کی وجہ سے آپ تینوں ایک ایک رعائت لے سکتے ھو
سب سے پہلے فلپائنی سے پوچھا کہ تم بتاؤ کہ کیا چاہتے ہو؟
اس نے کہا کہ کوڑے مارنے سے پہلے میری کمر پر ایک تکیہ باندھ دیا جائے
چنانچہ اس کی کمر پر تکیہ باندھ کر کوڑے لگانے شروع کر دئے گئے
پندرہ سولہ کوڑوں کے بعد تکیہ پھٹ گیا اور باقی کوڑے اسے اپنی کمر پر سہنے پڑے
نیا نکور لطیفہ. ..
ایک شہری کسی گاؤں میں مہمان بن کر گیا نماز کے وقت مہمان و میزبان نماز پڑھنے گاؤں کی مسجد میں گیے نماز جب شروع ہوئی تو پیش امام نے ساری نماز غلط سلط پڑھی نہ الفاظ صحیح تھے نہ حرکات و سکنات واپسی پر مہمان نے میزبان سے کہا. 
مہمان: "آپ کے امام صاحب نے ساری نماز غلط پڑھی"
میزبان: عموماً تو ایسا نہیں ہوتا مگر جب نشے میں ہو تو پھر نماز میں چوک بھی جاتا ہے
*مولوی صاحب کا پاجامہ اور سرکاری ملازمین کی تنخواہیں*

 ایک مولوی صاحب کا پاجامہ درزی نے زرا لمبا کردیا۔ مولوی صاحب شرعی یعنی ٹخنوں سے اونچا پائجامہ پہنتے تھے۔ 
بیگم سے کہا کہ جمعہ سے پہلے زرا پاجامہ چار انچ کم کردینا۔ بیگم روز مرہ کی مصروفیت میں بھول گئیں۔ 
دوسرے دن مولوی صاحب نے بیٹی سے کہا کہ زرا پاجامہ چار انچ کم کردینا۔ بیٹی بھی ٹال گئی۔ 
تیسرے دن مولوی صاحب نے بہو سے پاجامہ چار انچ کم کرنے کا کہا۔ بہو بھی بھول گئی۔ 

تین مراثی ایک جگہ سے گزر رہے تھے کہ انکی نظر ایک بینر پر پڑی جس پر لکھا تھا "یہ زرعی زمین برائے فروخت ھے"
اُن میں سے ایک مراثی نے کہا کیوں نا یہ جگہ ہم خرید لیں۔۔۔۔
دوسرے نے استفسار کیا مگر ہم یہاں کاشت کیا کریں گے؟
ایک ٹی وی صحافی ایک کسان کا انٹرویو لے رہا تھا ...

صحافی: آپ بکرے کو کیا کھلاتے ہیں ... ؟؟
کسان: سیاہ یا سفید کو ... ؟؟

صحافی: سفید کو ..
کسان: گھاس ..

ڈاکٹر: آپ کے شوہر کو آرام کی سخت ضرورت ہے یہ نیند کی گولیاں رکھ لیں..
بیوی:میں سیدھی بیوٹی پارلر سے آ رہی ہوں ۔۔پورے تین گھنٹے بیٹھنا پڑا

اج کیہ پکائیے

اج کیہ پکائیے ۔۔۔۔

چوہدری ۔ ...
اج کیہ پکائیے دس تیرا کی خیال اے 
رحماں ۔ میں کی خیال دساں میری کی مجال اے 
چوہدری ۔۔چل فیر رحمیا اج چسکے ای لا لیے
لبھ جان چنگیاں تے بھنڈیاں پکا لئیے  
رحما ۔۔۔
 .  .  .  .  واہ واہ تساں بجھیاں نیں دلاں دیاں چوریاں 

قربانی کا بکرا

ﺩﻭ ﺩﻭﺳﺖ ﺍﯾﮏ ﺑﯿﻨﮏ ﮐﮯ ﻣﻼﺯﻡ ﺗﮭﮯ . ﻗﺮﺑﺎﻧﯽ ﮐﯿﻠﯿﮯ ﺑﮑﺮﺍ ﺧﺮﯾﺪﻧﺎ ﺗﮭﺎ . ﺑﯿﻨﮏ ﺳﮯ ﭘﯿﻨﭧ ﮐﻮﭦ ﭘﮩﻨﮯ ﭨﺎﺋﯽ ﻟﮕﺎﺋﮯ ﻭﮦ ﻣﻮﯾﺸﯿﻮﮞ ﮐﯽ ﻣﻨﮉﯼ ﭘﮩﻨﭻ ﮔﺌﮯ .

ﮔﺎﮌﯼ ﭘﺎﺭﮎ ﮐﯽ ﺍﻭﺭ ﻣﻨﮉﯼ ﮐﺎ ﺟﺎﺋﺰﮦ ﻟﯿﺎ ﮐﮧ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ ﺟﺎﺋﮯ . ﺳﮍﮎ ﮐﮯ ﺩﻭﻧﻮﮞ ﺍﻃﺮﺍﻑ ﺗﻘﺮﯾﺒﺎً ﺍﯾﮏ ﮐﻠﻮ ﻣﯿﭩﺮ ﺳﮯ ﺯﯾﺎﺩﮦ ﻋﻼﻗﮯ ﻣﯿﮟ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﮨﯽ ﺟﺎﻧﻮﺭ ﺗﮭﮯ .

ﺟﮩﺎﮞ ﮔﺎﮌﯼ ﻟﮕﺎﺋﯽ ﺗﮭﯽ ﻭﮨﯿﮟ ﺳﮯ ﭘﻮﭼﮭﻨﺎ ﺷﺮﻭﻉ ﮐﯿﺎ . ﺟﻮ ﺑﮑﺮﺍ ﮐﭼﮫ ﺁﻧﮑﮭﻮﮞ ﮐﻮ ﺍﭼﮭﺎ ﻟﮕﮯ ﺍﺱ

پئے عید اچوں گینڑویں دینہہ بچدن کائی وطن تے سوچ ولنڑ

پئے عید اچوں گینڑویں دینہہ بچدن کائی وطن تے سوچ ولنڑں دی
آپوں کسر تاں کوئ نانہہ چھوڑی بیٹھا تیڈو میں پیغام گھلنڑ دی
کائی کوشش کر کیوں جو عمر نئیں رہ گئ میڈی ہُنڑ صدمات جھلنڑ دی
ھوندی سکت تاں یاور اپڑ ویندم پچھوں بھج کے نال رلنڑ دی

میری جند ہئی قاصد انہاں شیشیاں وچ ہتھ جگر تے دھر

میری جند ہئی قاصد انہاں شیشیاں وچ ہتھ جگر تے دھر کے گھلن

پورے سال دیوانے ہتھ مارن تے مسیں اج مر مر کے گھلن

ظلماں دی حد نئیں عید دے دیں کیڈے باسط پھر کے گھلن

چھج بھر کے گھلیا اے تحفیاں دا اونہاں کرکچ کر کے گھلن

قوم اور گدھا

 بند دکان کے تھڑے پر بیٹھے دو بوڑھے آپس میں باتیں کرتے ہوئے ہنس ہنس کر لوٹ پوٹ ہو رہے تھے کہ ایک متجسس راہگیر نے ان سے اتنا خوش ہونے کی وجہ ...